مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سینئر ایرانی قانون ساز جناب عزیزي نے کہا کہ موجودہ حالات میں ایران اور امریکہ کے درمیان نہ براہِ راست اور نہ ہی بالواسطہ، کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہو رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکیوں کے گزشتہ رویے کو دیکھتے ہوئے ان کے ساتھ مذاکرات ایران کے لیے کسی نتیجے کا باعث نہیں ہوں گے بلکہ وقت کا ضیاع ثابت ہوں گے۔
ایران کی پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے سربراہ نے واضح کیا کہ اس سلسلے میں کوئی منصوبہ یا اقدام نہیں کیا جا رہا۔
قانون ساز نے امریکہ کی مذاکراتی پیشکش کو "ڈکٹیشن" سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے غیر معمولی مطالبات ناقابلِ قبول ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ جو بات مذاکرات کے نام پر پیش کر رہا ہے وہ زیادہ تر حکم اور ڈکٹیشن کی مانند ہے، اور کوئی ملک، بالخصوص اسلامی جمہوریہ ایران جو قومی قوت، عظیم قوم اور عوامی حمایت رکھتا ہے، ایسے مذاکرات میں کبھی داخل نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ ایران اور امریکہ نے ایران کے جوہری پروگرام پر پانچ دور کے بالواسطہ مذاکرات کیے تھے، لیکن غاصب اسرائیل کی جانب سے اسلامی جمہوریہ پر جنگ مسلط کرنے اور ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد یہ سلسلہ رک گیا۔ عمان کی ثالثی میں چھٹا دور مسقط میں ہونا تھا، لیکن اسرائیلی حملوں کے باعث منسوخ کر دیا گیا۔
اس جارحیت میں ایک ہزار سے زائد افراد شہید ہوئے جن میں ایران کے اعلیٰ فوجی حکام اور کمانڈر بھی شامل تھے۔
ایران نے کہا کہ امریکہ نے دہشت گردانہ کارروائی کی مذمت کرنے کے بجائے تین ایرانی جوہری مراکز پر حملہ کیا، جسے تہران نے سفارت کاری سے غداری قرار دیا۔
ایران نے زور دیا کہ اگر امریکہ اور یورپ تہران کے ساتھ اعتماد کی بحالی چاہتے ہیں تو انہیں خلوص کا مظاہرہ کرنا ہوگا، اسلامی جمہوریہ کے حقوق کا احترام کرنا ہوگا اور غیر معمولی مطالبات سے باز آنا ہوگا۔
آپ کا تبصرہ